حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے ایران تشریف لائے معروف عالم دین، نمائندگی المصطفی پاکستان میں ادارہ ارتباطات اور امور بین الملل کے مسئول، مدرسہ علمیہ "جامعۃ الفرات" کے مُشرف اور مرکز افکار اسلامی پاکستان کے مسئول حجت الاسلام والمسلمین انیس الحسنین خان نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو دئے گئے ایک انٹرویو میں اپنی دینی و مذہبی فعالیت اور جامعۃ المصطفی میں داخلہ کے مراحل سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: جامعۃ المصطفی میں پذیرش کے سلسلہ میں سب سے آسان طریقہ کار کیا ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین انیس الحسنین خان:
جامعۃ المصطفی میں پذیرش کے کچھ راستے ہیں اور اس کی کچھ شرائط ہیں۔
بنیادی طور پر داخلہ کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو یہ داخلہ اسٹوڈنٹس کیلئے ہے یعنی جو حوزہ میں نہیں پڑھے، کہیں بھی پاکستان کے کسی مدرسہ میں حوزوی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ اول تو کم از کم انہیں انٹر پاس ہونا چاہئے کیونکہ المصطفی ایک یونیورسٹی ہے۔ یہ ایک بنیادی شرط ہے۔ البتہ جو نظامِ سطح ہے اس کیلئے ایف-اے یعنی انٹر شرط نہیں ہے اس کیلئے میٹرک پاس بھی لئے جا سکتے ہیں۔ ایران میں اگر کوئی ڈائریکٹ داخلہ کروانا چاہے تو اس کیلئے انٹر پاس افراد کا 80 فیصد سے زائد مارکس ہونا ضروری ہے۔ البتہ اس کیلئے کوئی تاریخ نہیں ہے جب بھی داخلہ کروانا چاہیں ہو سکتا ہے۔ یہ سارا سال جاری رہتا ہے۔
اب رہی بات کہ مدارس دینیہ سے طلاب کس طرح پذیرش کروائیں؟ اس کی کیا شرائط ہیں؟ تو ان کیلئے کم از کم یہ ہے کہ وہ مقدمات پاس ہوں۔ شرح لمعہ کچھ حصہ یعنی طہارت و صلاۃ پڑھا ہوا ہونا چاہئے۔ یعنی کم از کم لمعہ اول تک پاس ہو۔ پھر ان کا ایک آزمون (انٹری ٹیسٹ) ہوتا ہے، لڑکیاں یا لڑکے دونوں کیلئے۔ اس سے پہلے یعنی انٹری ٹیسٹ سے پہلے کسی کا داخلہ نہیں ہوتا۔
مدارس کے طلاب کیلئے ہمارے پاس دو سطوح ہیں؛ ایک تکمیلِ کارشناسی ہے یعنی کم از کم پانچ سال پڑھ چکے ہوں۔ یعنی جو طلاب لمعہ اول پاس ہوتے ہیں اور مدرسہ کا مدیر ان کی تائید کرتا ہے، ان کے نمبرز وہاں ہمارے پاس بھیجے جاتے ہیں، پھر مقامی عالم دین کی تصدیق ہو تو انہیں تکمیلِ کارشناسی کے آزمون میں شامل کیا جاتا ہے۔ پھر ان کی پذیرش ہوتی ہے۔ پھر وہ یہاں آ کر کارشناسی مکمل کرتے ہیں، کچھ وقت دیا جاتا ہے پھر ارشد کیلئے تیاری کرتے ہیں۔
یا اگر وہ وہاں پر لمعتین پاس ہیں اور اس کے علاوہ رسائل مکاسب پڑھنے والے ہیں تو ان کا ارشد کیلئے آزمون ہوتا ہے یعنی ان کی ایران میں کارشناسی ارشد کیلئے ڈائریکٹ پذیرش ہوتی ہے۔ البتہ نمائندگی میں بھی کارشناسی ارشد کا سسٹم موجود ہے لیکن اگر وہ چاہے تو ارشد کیلئے یہاں بھی آ سکتا ہے۔
حوزہ: فارغ التحصیل طلاب کے پاکستان آنے اور وہاں خدمات انجام دینے وغیرہ میں انہیں کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور آپ کی نظر میں اس کا راہِ حل کیا ہے؟
حجت الاسلام والمسلمین انیس الحسنین خان:
جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا کہ پاکستان میں آنے کیلئے طلاب کی جو ایک بڑی مشکل ہے وہ یہ ہے کہ ان کے پاس فقہ و اصول سمیت مختلف سبجیکٹس کی معلومات تو ہوتی ہیں لیکن وہ کئی مسائل سے عملی طور پر ناآشنا ہوتے ہیں یعنی جس چیز کی مہارت عملی طور پر ان کے پاس ہونی چاہئے تھی اس کی کمی ہوتی ہے۔ جسے برطرف کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے بھی ان مسائل کو دیکھتے ہوئے کئی ایک امور کو زیادہ فوکس کیا ہے جیسے یہاں پر "مرکز بیان" ہے۔ تبلیغی حوالے سے ہماری ان کے ساتھ قرار داد ہے، اسی طرح آموزش کوتاہ مدت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ طلاب کو یہاں پر ہی ایسے دورے کروائے جائیں تاکہ یہ جب پاکستان جائیں تو وہ اپنے آپ کو تعلیمی و تبلیغی امور کے لئے فٹ سمجھیں کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں، مثلا میں جاؤں گا تو خطابت کر سکتا ہوں، مسجد کی مدیریت کر سکتا ہوں، میں کسی تحقیقی مؤسسہ کو چلا سکتا ہوں، مجھے لکھنا آتا ہے وغیرہ۔ اسی طرح دیگر مختلف چیزیں ہیں جن پر ہم فوکس کر رہے ہیں تاکہ ہمارے فارغ التحصیلان معاشرے میں زیادہ سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں۔
البتہ ہم نے یہاں طلبہ کے پانچ دورے بھی کروائے جن میں مدیریت مسجد، روش بیان احکام، روش آموزش قرآن، سوشل میڈیا میں تبلیغ کا طریقہ کار؟ وہاں کی مشکلات سے آشنائی اور اس کا راہ حل۔ غرض بہت سارے امور ایسے ہیں جن کی وہاں عملی طور پر بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے پاکستان کے بڑے علمی مراکز کے تعارف پر بھی کام کیا ہے۔ جس میں شیعہ دینی مدارس و مراکز کے ساتھ ساتھ سنی مدارس اور مراکز جیسے دارالعلوم حقانیہ جیسے مدارس کا تعارف بھی شامل ہے۔
آخر میں انہوں نے پاکستان میں نصابِ تعلیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس میں موجود نواقص اور ان کی برطرفی کے سلسلہ میں کئے گئے اقدامات کی طرف بھی اشارہ کیا۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ الحمد للہ کافی کوششوں اور غور و خوض کے بعد اب ایک اچھا اور مدوّن تعلیمی نصاب سامنے آیا ہے کہ اگر اس پر صحیح عمل درآمد کیا جائے تو مدارس کی تعلیمی سطح بھی بہتر ہو گی اور ہمارے طلبہ بھی مضبوط انداز میں آگے بڑھ سکیں گے؛ ان شاء اللہ۔